وہ عرض غم پہ مشورۂ اختصار دے
کوزے میں کیسے کوئی سمندر اتار دے
دنیا ہو آخرت ہو وہ سب کو سنوار دے
توفیق عشق جس کو بھی پروردگار دے
پھر دعوت کرم نگہ شعلہ بار دے
اللہ مستقل مجھے صبر و قرار دے
جس پھول کا بھی دیکھیے دامن ہے تار تار
کتنا بڑا سبق ہمیں فصل بہار دے
درد جگر شکستہ دلی بے قراریاں
کیا کیا نہ لطف مجھ کو ترا انتظار دے
واعظ اسے بتاؤ نہ جنت کے تم مزے
خلد بریں کا لطف جسے کوئے یار دے
کنگن ادھر کلائی میں گھوما تو یوں لگا
آواز مجھ کو گردش لیل و نہار دے
چہرے پہ وہ سجائے ہے معصومیت کا نور
اب کون اس کو زحمت بوس و کنار دے
میں ہوں شہید راہ محبت مگر علیمؔ
میرا غلط پتہ مری لوح مزار دے

غزل
وہ عرض غم پہ مشورۂ اختصار دے
علیم عثمانی