وہ اپنی ذات میں گم تھا نہیں کھلا مرے ساتھ
رہا ہے ساتھ مرے پر نہیں رہا مرے ساتھ
یہ تیری یاد کا اعجاز ہی تو ہے کہ یہ دل
میں جل کے راکھ ہوا ہوں نہیں جلا مرے ساتھ
ترے خلاف کیا جب بھی احتجاج اے دوست
مرا وجود بھی شامل نہیں ہوا مرے ساتھ
مرا جو رستہ تھا دراصل راستہ تھا وہی
یہ اور بات زمانہ نہیں چلا مرے ساتھ
نبھا سکا نہ تعلق کوئی بھی میں فرتاشؔ
یہاں ہے کون کہ جس کو نہیں گلہ مرے ساتھ
غزل
وہ اپنی ذات میں گم تھا نہیں کھلا مرے ساتھ
فرتاش سید