وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے
تعلقات تو اب بھی ہیں رابطہ کم ہے
تم اس خموش طبیعت پہ طنز مت کرنا
وہ سوچتا ہے بہت اور بولتا کم ہے
بلا سبب ہی میاں تم اداس رہتے ہو
تمہارے گھر سے تو مسجد کا فاصلا کم ہے
فضول تیز ہواؤں کو دوش دیتا ہے
اسے چراغ جلانے کا حوصلہ کم ہے
میں اپنے بچوں کی خاطر ہی جان دے دیتا
مگر غریب کی جاں کا معاوضہ کم ہے
غزل
وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے
نواز دیوبندی