EN हिंदी
وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے | شیح شیری
wo apne ghar ke darichon se jhankta kam hai

غزل

وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے

نواز دیوبندی

;

وہ اپنے گھر کے دریچوں سے جھانکتا کم ہے
تعلقات تو اب بھی ہیں رابطہ کم ہے

تم اس خموش طبیعت پہ طنز مت کرنا
وہ سوچتا ہے بہت اور بولتا کم ہے

بلا سبب ہی میاں تم اداس رہتے ہو
تمہارے گھر سے تو مسجد کا فاصلا کم ہے

فضول تیز ہواؤں کو دوش دیتا ہے
اسے چراغ جلانے کا حوصلہ کم ہے

میں اپنے بچوں کی خاطر ہی جان دے دیتا
مگر غریب کی جاں کا معاوضہ کم ہے