وہ عہد جوانی وہ خرابات کا عالم
نغمات میں ڈوبی ہوئی برسات کا عالم
اللہ رے اس زلف کے جاں بخش اندھیرے
جیسے کہ مہکتے ہوئے ظلمات کا عالم
اے رعشۂ مستی کا سبب پوچھنے والے
دیکھا ہے کبھی پہلی ملاقات کا عالم
نکلے تھے مرے ساتھ وہ جب بزم ازل سے
کچھ صبح کے آثار تھے کچھ رات کا عالم
یوں اس کی جوانی کا کچھ اندازہ تھا جیسے
مے خانے پہ امڈی ہوئی برسات کا عالم
آنکھوں کے تصادم میں حکایات کی دنیا
ہونٹوں کے تصادم میں خرابات کا عالم
آواز میں کلیوں کے چٹکنے کی لطافت
رفتار میں بہتے ہوئے نغمات کا عالم
ہنستی ہوئی آنکھوں سے سوالات کی بارش
جلتے ہوئے ہونٹوں میں جوابات کا عالم
کچھ مجھ کو خبر تھی نہ انہیں ہوش تھا اپنا
اللہ رے مدہوشی و جذبات کا عالم
آنکھوں میں شفق جسم میں مے زلف میں ٹھنڈک
عالم بھی وہ عالم کہ خرابات کا عالم
انفاس سے آتی ہوئی اک نرم سی خوشبو
سمٹا ہوا ہونٹوں میں مدارات کا عالم
وہ چیز جسے زندگی کہتے ہیں وہ کیا ہے
ہنستے ہوئے شفاف خیالات کا عالم
بیٹھا ہوں عدمؔ لے کے بڑی دیر سے دل میں
کہتے ہیں جسے حرف و حکایات کا عالم
غزل
وہ عہد جوانی وہ خرابات کا عالم
عبد الحمید عدم