وہ ابر سایہ فگن تھا جو رحمتوں کی طرح
کسے خبر تھی نوازے گا بجلیوں کی طرح
اس انقلاب کی دستک سنائی دیتی ہے
جو بستیوں کو مٹا دے گا زلزلوں کی طرح
ملا ہے وہ تو لگا ہے جنم جنم کا رفیق
بچھڑ گیا تھا جو بچپن کے ساتھیوں کی طرح
مری ہے پیاس جو صحرا بہ لب، شرر بہ زباں
تمہاری آنکھ ہے گہرے سمندروں کی طرح
میں اس کے قرب کی خوشبو سے بن گیا ہوں گلاب
وہ میرے پاس چہکتی ہے بلبلوں کی طرح
ستم ظریف ججوں نے ہے سیفؔ جھٹلایا
ہمارے خون کو جھوٹی شہادتوں کی طرح

غزل
وہ ابر سایہ فگن تھا جو رحمتوں کی طرح
سیف علی