EN हिंदी
وہ آزمائیں مجھے ان کو آزماؤں میں | شیح شیری
wo aazmaen mujhe un ko aazmaun main

غزل

وہ آزمائیں مجھے ان کو آزماؤں میں

مجاہد فراز

;

وہ آزمائیں مجھے ان کو آزماؤں میں
پھر آندھیوں کے لئے اک دیا جلاؤں میں

پھر اپنی یاد کی پروائیاں بھی قید کرے
وہ چاہتا ہے اگر اس کو بھول جاؤں میں

اداس آنکھوں کو سوغات دے کے اشکوں کی
یہ اس نے خوب کہا ہے کہ مسکراؤں میں

میاں یہ زیست کی سچائیوں کے قصے ہیں
کوئی فسانہ نہیں ہے جسے سناؤں میں

فساد، قتل، تعصب، فریب، مکاری
سفید پوشوں کی باتیں ہیں کیا بتاؤں میں

اسی کو کہتے ہیں معراج کیا محبت کی
وہ یاد آئے تو پھر خود کو بھول جاؤں میں

جمال یار پہ غزلیں تو ہو چکی ہیں بہت
یہ سوچتا ہوں اسے آئینہ دکھاؤں میں