وہ آتے جاتے ادھر دیکھتا ذرا سا ہے
نہیں ہے ربط مگر رابطہ ذرا سا ہے
یہ کوفیوں کی کہانی ہے میرے دوست مگر
یہاں پہ آپ کا بھی تذکرہ ذرا سا ہے
اب اس کو کاٹنے میں جانے کتنی عمر لگے
ہمارے درمیاں جو فاصلہ ذرا سا ہے
نگاہ ایک سڑک ہے اور اس کی منزل دل
ادھر سے جاوے تو یہ راستہ ذرا سا ہے
تجھے لگا کہ تو کر لے گا صبر میرے بغیر
تو کر کے دیکھ ہی لے تجربہ ذرا سا ہے
ادھر کبیرؔ بگولے ہوا کے تند و تیز
اور اس طرف یہ اکیلا دیا ذرا سا ہے

غزل
وہ آتے جاتے ادھر دیکھتا ذرا سا ہے
انعام کبیر