وہ آنسو جو ہنس ہنس کے ہم نے پیے ہیں
تمہارے دئیے تھے تمہارے لیے ہیں
کریں وہ جو چاہیں کہیں وہ جو چاہیں
میں پابند الفت مرے لب سیے ہیں
تمہارے ہی رحم و کرم کے سہارے
نہ معلوم مر مر کے کیونکر جیے ہیں
بڑی دیر تک جس سے پونچھے تھے آنسو
وہ دامن ابھی ہاتھ ہی میں لیے ہیں
اسے میں ہی سمجھوں اسے میں ہی جانوں
ستم کر رہے ہیں کرم بھی کیے ہیں
کہاں پائے نازک کہاں راہ الفت
مرے ساتھ دو اک قدم ہو لیے ہیں
ہنساتا ہے سب کو ہمارا فسانہ
ہمیں کہتے کہتے کبھی رو لیے ہیں
گل و باغ و نغمہ مہ و مہر و انجم
جو تم ہو مرے سب یہ میرے لیے ہیں
اٹھاتے وہ کیوں مل کے بار محبت
یہ کیا کم ہے تھوڑا سہارا دئیے ہیں
بھلے ہیں برے ہیں کسی سے غرض کیا
رضاؔ وہ بہرحال میرے لیے ہیں
غزل
وہ آنسو جو ہنس ہنس کے ہم نے پیے ہیں
رضا لکھنوی