وہ آنکھ عجب رو میں بہا لے گئی ہم کو
اک موج تھی ساحل سے اٹھا لے گئی ہم کو
کب شوق سے جاتا ہے کوئی راہ جنوں پر
وہ تو تری نظروں کی خطا لے گئی ہم کو
اس شہر میں ہم جرم محبت کے لیے آئے
اور دشت میں تقصیر وفا لے گئی ہم کو
ہم کون قلندر تھے کہ جا ملتے خدا سے
پر اک بت کافر کی دعا لے گئی ہم کو
اک زیست ہمیں جس نے کہیں کا نہیں رکھا
اک موت کہ سینے سے لگا لے گئی ہم کو
لے جاتا تھا ہر یار ہمیں اپنا سمجھ کر
پھر یوں ہوا اک روز قضا لے گئی ہم کو
خوشبو ترے آنچل کی تھی یا تیرے بدن کی
سنگ اپنے بہرحال اڑا لے گئی ہم کو
ہم دل تھے اور اک دل کے لیے آئے تھے ساگرؔ
پر موج غم دہر بہا لے گئی ہم کو

غزل
وہ آنکھ عجب رو میں بہا لے گئی ہم کو
محمد سلیم ساگر