EN हिंदी
وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے | شیح شیری
wo aalam hai ki munh phere hue aalam nikalta hai

غزل

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے

صفی لکھنوی

;

وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
شب فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے

الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے
نہ میرا دم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے

قیامت ہی نہ ہو جائے جو پردے سے نکل آؤ
تمہارے منہ چھپانے میں تو یہ عالم نکلتا ہے

شکست رنگ رخ آئینۂ بے تابیٔ دل ہے
ذرا دیکھو تو کیوں کر غم زدوں کا دم نکلتا ہے

نگاہ التفات مہر اور انداز دلجوئی
مگر اک پہلوئے بے تابئ شبنم نکلتا ہے

صفیؔ کشتہ ہوں نا‌ پرسانیوں کا اہل عالم کی
یہ دیکھوں کون میرا صاحب ماتم نکلتا ہے