وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
شب فرقت کے غم جھیلے ہوؤں کا دم نکلتا ہے
الٰہی خیر ہو الجھن پہ الجھن بڑھتی جاتی ہے
نہ میرا دم نہ ان کے گیسوؤں کا خم نکلتا ہے
قیامت ہی نہ ہو جائے جو پردے سے نکل آؤ
تمہارے منہ چھپانے میں تو یہ عالم نکلتا ہے
شکست رنگ رخ آئینۂ بے تابئ دل ہے
ذرا دیکھو تو کیوں کر غم زدوں کا دم نکلتا ہے
نگاہ التفات مہر اور انداز دل جوئی
مگر اک پہلوئے بے تابئ شبنم نکلتا ہے
صفیؔ کشتہ ہوں نا پرسانیوں کا اہل عالم کی
یہ دیکھوں کون میرا صاحب ماتم نکلتا ہے
غزل
وہ عالم ہے کہ منہ پھیرے ہوئے عالم نکلتا ہے
صفی لکھنوی