وہ آفتاب میں ہے اور نہ ماہتاب میں ہے
جو روشنی کہ ترے حس بے نقاب میں ہے
چمن میں لالہ و گل شرمسار ہوتے ہیں
عجب طرح کا اثر حس بے نقاب میں ہے
میں اپنے عشق فراواں پہ ناز کرتا ہوں
مرا کمال مرے حسن انتخاب میں ہے
اجڑ گیا ہے مرا گلشن حیات مگر
جنون شوق مرا عالم شباب میں ہے
نجات اس کی بجز عاشقی نہیں ہوگی
پھنسا ہوا جو زمانے کے پیچ و تاب میں ہے
وہ بزم شوق میں شامل کبھی نہیں ہوگا
جو بے وقوف کہ الجھا ہوا حساب میں ہے
وہ ولولہ ہے مری زندگی کی روح رواں
جو ولولہ کہ مرے شوق بے حساب میں ہے
وہ بے نقاب کیا جدت تخیل نے
جو راز کہنہ روایات کے نقاب میں ہے
مآل جوش عمل سر بلندئ قطرہ
یہ راز زیست نہاں خیمۂ حباب میں ہے
سکوت میں ہے زمانے کی موت پوشیدہ
حیات وہ ہے جو ہر لحظہ اضطراب میں ہے
مجھے قبول نہیں روز و شب کی خاموشی
مری حیات فقط شور انقلاب میں ہے
غزل
وہ آفتاب میں ہے اور نہ ماہتاب میں ہے
زاہد چوہدری