EN हिंदी
وو آئیں اوب گئے ہیں جو دہر میں اپنے | شیح شیری
wo aaen ub gae hain jo dahr mein apne

غزل

وو آئیں اوب گئے ہیں جو دہر میں اپنے

آیوش چراغ

;

وو آئیں اوب گئے ہیں جو دہر میں اپنے
میں ایک دشت بناتا ہوں شہر میں اپنے

کسی کی یاد بھنور بن کے اس طرح لپٹی
کہ پاؤں چھوڑ ہی آیا میں نہر میں اپنے

سبھی کو بانٹ کے شکلیں خودی رہے بے شکل
ہمیں اکیلے مصور تھے شہر میں اپنے

گنوں جو پھر سے انہیں اب تو بڑھ گئے ہوں گے
گنے ہیں زخم ابھی پچھلے پہر میں اپنے

غزل کا ذائقہ مرتے سمے بھی تازہ رہے
شکر ملائی ہے سو ہم نے زہر میں اپنے

چراغ ہم سے ادیبوں نے فاصلہ رکھا
تمام شیر تھے حالانکہ بحر میں اپنے