وہ آئیں اوب گئے ہیں جو دہر میں اپنے
میں ایک دشت بناتا ہوں شہر میں اپنے
کسی کی یاد بھنور بن کے اس طرح لپٹی
کہ پاؤں چھوڑ ہی آیا میں نہر میں اپنے
سبھی کو بانٹ کے شکلیں خودی رہے بے شکل
ہمیں اکیلے مصور تھے شہر میں اپنے
گنوں جو پھر سے انہیں اب تو بڑھ گئے ہوں گے
گنے ہیں زخم ابھی پچھلے پہر میں اپنے
غزل کا ذائقہ مرتے سمے بھی تازہ رہے
شکر ملائی ہے سو ہم نے زہر میں اپنے
چراغؔ ہم سے ادیبوں نے فاصلہ رکھا
تمام شعر تھے حالانکہ بحر میں اپنے
غزل
وہ آئیں اوب گئے ہیں جو دہر میں اپنے
آیوش چراغ