وصال گھڑیوں میں ریزہ ریزہ بکھر رہے ہیں
یہ کیسی رت ہے یہ کن عذابوں کے سلسلے ہیں
مرے خدا اذن ہو کہ مہر سکوت توڑیں
مرے خدا اب ترے تماشائی تھک چکے ہیں
نہ جانے کتنی گلاب صبحیں خراج دے کر
رسن رسن گھور اماوسوں میں گھرے ہوئے ہیں
صدائیں دینے لگی تھیں ہجرت کی اپسرائیں
مگر مرے پاؤں دھرتی ماں نے پکڑ لیے ہیں
یقیں کر لو کہ اب نہ پیچھے قدم ہٹے گا
یہ آخری حد تھی اور ہم اس تک آ گئے ہیں
غزل
وصال گھڑیوں میں ریزہ ریزہ بکھر رہے ہیں
حسن عباس رضا