ویراں بہت ہے خواب محل جاگتے رہو
ہمسائے میں کھڑی ہے اجل جاگتے رہو
جس پر نثار نرگس شہلا کی تمکنت
وہ آنکھ اس گھڑی ہے سجل جاگتے رہو
یہ لمحۂ امید بھی ہے وقت خوف بھی
حاصل نہ ہوگا اس کا بدل جاگتے رہو
جن بازوؤں پہ چارہ گری کا مدار تھا
وہ تو کبھی کے ہو گئے شل جاگتے رہو
ذہنوں میں تھا ارادۂ شب خون کل تلک
اب ہو رہا ہے رو بہ عمل جاگتے رہو
جس رات میں نہ ہجر ہو نے وصل اجملیؔ
اس رات میں کہاں کی غزل جاگتے رہو
غزل
ویراں بہت ہے خواب محل جاگتے رہو
سراج اجملی