وداع ساتھ تمہارے ہی ہو گیا سورج
پھر اس کے بعد نہ ہم کو کہیں ملا سورج
کہیں ابھر نہ سکا روز و شب کی محفل میں
میں دن کا چاند رہا اور رات کا سورج
اٹھے جو ہم سے گراں گوش تو ہوا معلوم
ہمیں پکار کے کب کا چلا گیا سورج
ملن کی شام سہی پر ملن نصیب کہاں
تو چڑھتے چاند کی میت میں ڈوبتا سورج
اس ایک شام کو جس کے لئے تھے چشم براہ
خلاف وقت بڑی دیر سے ڈھلا سورج
مصورؔ آؤ اسی شعلہ رخ کی سمت چلیں
سنا ہے ڈھلتا نہیں اس کے بام کا سورج
غزل
وداع ساتھ تمہارے ہی ہو گیا سورج
مصور سبزواری