وسوسے دل میں نہ رکھ خوف رسن لے کے نہ چل
عزم منزل ہے تو ہمراہ تھکن لے کے نہ چل
راہ منزل میں بہر حال تبسم فرما
ہر قدم دکھ سہی ماتھے پہ شکن لے کے نہ چل
نور ہی نور سے وابستہ اگر رہنا ہے
سر پہ سورج کو اٹھا صرف کرن لے کے نہ چل
پہلے فولاد بنا جسم کو اپنے اے دوست
بارش سنگ میں شیشہ سا بدن لے کے نہ چل
آس انصاف کی منصف سے نہیں ہے تو نہ رکھ
ناامیدی کی مگر دل میں چبھن لے کے نہ چل
غزل
وسوسے دل میں نہ رکھ خوف رسن لے کے نہ چل
ابرار کرتپوری