EN हिंदी
وصل و فصل کی ہر منزل میں شامل اک مجبوری تھی | شیح شیری
wasl o fasl ki har manzil mein shamil ek majburi thi

غزل

وصل و فصل کی ہر منزل میں شامل اک مجبوری تھی

سلیم احمد

;

وصل و فصل کی ہر منزل میں شامل اک مجبوری تھی
تجھ سے ملتے تو کیا ملتے خود سے بھی مہجوری تھی

وصل کے سارے لمحے جھوٹے ملنا قرض جدائی تھا
ساتھ ہمارے پہلو بہ پہلو قرب کے بھیس میں دوری تھی

آہوں کی تعمیریں کی تھیں صبر کے باغ لگائے تھے
شہر وفا میں محنت جاں کی روز نئی مزدوری تھی

باتیں لاکھوں کچھ بھی کہیے لیکن اس کے بعد یہ فکر
جانے کیا کہنا بھولے ہیں کوئی بات ضروری تھی

قصہ چھیڑا مہر و وفا کا اول شب ان آنکھوں نے
رات کٹی اور عمر گزاری پھر بھی بات ادھوری تھی

بعد میں کیا انجام ہوا یہ آگے پڑھنے والے بتائیں
اس کی کتاب دل داری کی پہلی جلد تو پوری تھی