EN हिंदी
وصل کی رات وہ تنہا ہوگا | شیح شیری
wasl ki raat wo tanha hoga

غزل

وصل کی رات وہ تنہا ہوگا

انجم لدھیانوی

;

وصل کی رات وہ تنہا ہوگا
اس پہ حالات کا پہرہ ہوگا

نیند کیوں ٹوٹ گئی آخر شب
کون میرے لئے تڑپا ہوگا

خوشبوئیں پھوٹ کے روئی ہوں گی
گل ہواؤں میں جو بکھرا ہوگا

وادئ ذہن سے اٹھتا ہے دھواں
قافلہ یادوں کا ٹھہرا ہوگا

جانے کس حال سے گزری ہوگی
پھول جس شاخ پہ اترا ہوگا

یاد آئیں گی ہماری غزلیں
ذکر جب تازہ ہوا کا ہوگا

چاند کو دیکھ کے چھت پر انجمؔ
سایہ دیوار سے نکلا ہوگا