وصل کی رات میں ہم رات میں بہہ جاتے ہیں
وصل کب کرتے ہیں جذبات میں بہہ جاتے ہیں
آب جو ہم ہیں پہ دریا کے ہمارے سبھی خواب
رد تعبیر کی برسات میں بہہ جاتے ہیں
بار بار آتے ہیں ہم اپنے حمل میں لیکن
شہر کی سازش اسقاط میں بہہ جاتے ہیں
جسم کے اپنے بھی جادو ہیں پہ کچے ہیں ابھی
روح کی مشق طلسمات میں بہہ جاتے ہیں
تہہ دریائے کرم دیر سے کھلتی ہے سو ہم
اوپر اوپر کی عنایات میں بہہ جاتے ہیں
ختم مجلس پہ نہ آیا کبھی رونا ہم کو
سارے آنسو تو شروعات میں بہہ جاتے ہیں
غزل
وصل کی رات میں ہم رات میں بہہ جاتے ہیں
فرحت احساس