EN हिंदी
وصل کا اس کے دل زار تمنائی ہے | شیح شیری
wasl ka uske dil-e-zar tamannai hai

غزل

وصل کا اس کے دل زار تمنائی ہے

الطاف حسین حالی

;

وصل کا اس کے دل زار تمنائی ہے
نہ ملاقات ہے جس سے نہ شناسائی ہے

قطع امید نے دل کر دیے یکسو صد شکر
شکل مدت میں یہ اللہ نے دکھلائی ہے

قوت دست خدائی ہے شکیبائی میں
وقت جب آ کے پڑا ہے یہی کام آئی ہے

ڈر نہیں غیر کا جو کچھ ہے سو اپنا ڈر ہے
ہم نے جب کھائی ہے اپنے ہی سے زک کھائی ہے

نشہ میں چور نہ ہوں جھانجھ میں مخمور نہ ہوں
پند یہ پیر خرابات نے فرمائی ہے

نظر آتی نہیں اب دل میں تمنا کوئی
بعد مدت کے تمنا مری بر آئی ہے

بات سچی کہی اور انگلیاں اٹھیں سب کی
سچ میں حالیؔ کوئی رسوائی سی رسوائی ہے