EN हिंदी
وصل بھی ہجر تھا وصال نہ تھا | شیح شیری
wasl bhi hijr tha visal na tha

غزل

وصل بھی ہجر تھا وصال نہ تھا

یشب تمنا

;

وصل بھی ہجر تھا وصال نہ تھا
مل رہے تھے مگر خیال نہ تھا

مل رہے تھے کہ دونوں تنہا تھے
گفتگو میں بھی قیل و قال نہ تھا

میرے اور اس کے درمیان ابھی
کوئی بھی سلسلہ بحال نہ تھا

راستے ختم ہو چکے تھے مگر
واپسی کا کوئی سوال نہ تھا

یہ بھی اک مرحلہ تمام ہوا
ہو گئے تھے جدا ملال نہ تھا

وہ ترا حسن ہو کہ عشق مرا
کوئی پابند ماہ و سال نہ تھا