EN हिंदी
ورق ورق تجھے تحریر کرتا رہتا ہوں | شیح شیری
waraq waraq tujhe tahrir karta rahta hun

غزل

ورق ورق تجھے تحریر کرتا رہتا ہوں

رئیس الدین رئیس

;

ورق ورق تجھے تحریر کرتا رہتا ہوں
میں زندگی تری تشہیر کرتا رہتا ہوں

بہت عزیز ہے مجھ کو مسافتوں کی تھکن
سفر کو پاؤں کی زنجیر کرتا رہتا ہوں

مصوروں کو ہے زعم مصوری لیکن
میں اپنی زیست کو تصویر کرتا رہتا ہوں

میں سونپ دیتا ہوں ہر رات اپنے خوابوں کو
ہر ایک صبح کو تعبیر کرتا رہتا ہوں

سپر بناتا ہوں لفظوں کو شعر میں لیکن
قلم کو اپنے میں شمشیر کرتا رہتا ہوں

ہزار عیب خود اپنے ہی نام میں لکھ کر
میں تیری رائے ہمہ گیر کرتا رہتا ہوں

وہ میری فکر میں بدلے کا زہر گھولتا ہے
مگر میں زہر کو اکسیر کرتا رہتا ہوں

میں شہر شہر بھٹکتا ہوں اور روزانہ
خود اپنی ذات کی تعمیر کرتا رہتا ہوں

لکھے ہیں حصے میں میرے رئیسؔ سناٹے
نوائے وقت کی تسخیر کرتا رہتا ہوں