وقت پر آتے ہیں نہ جاتے ہیں
روز اقرار بھول جاتے ہیں
وہ جو بے وجہ مسکراتے ہیں
سیکڑوں وہم دل میں آتے ہیں
اشک حسرت نکل کے دامن میں
جان سے ہاتھ دھوئے آتے ہیں
جب تم آتے نہیں ہو وعدہ پر
ملک الموت کو بلاتے ہیں
سو گیا بخت جب سے رو رو کر
سارے ہم سایوں کو جگاتے ہیں
ان کو شرم و حیا نہیں آتی
دل چرا کر نظر چراتے ہیں
بے خطا ہے وہ آسماں مجرم
اس کو الزام کیوں لگاتے ہیں
جان کر بن گئے ہیں ہم بھولے
چٹکیوں میں کسے اڑاتے ہیں
تیرے کوچہ میں ہم بھی اب تھک کر
دل کے مانند بیٹھے جاتے ہیں
غیر کیا اور اس کی ہستی کیا
آپ کیوں مفت خوف کھاتے ہیں
کوئی تازہ ستم کیا ایجاد
دیکھ کر وہ جو مسکراتے ہیں
آگ پانی میں کیوں لگاتے ہو
نیک جو لوگ ہیں بجھاتے ہیں
تم مرے دل میں ہو تو دیکھوں میں
حور و غلماں کہیں سماتے ہیں
میں نے پوچھی جو وجہ قتل کہا
ٹھہرو دم لے کے ہم بتاتے ہیں
عشق تیرے طفیل دنیا کے
طنزیں سنتے ہیں طعنے کھاتے ہیں
بے سبب کیا بگڑنے کا باعث
آپ پرویںؔ کو بھی بناتے ہیں
غزل
وقت پر آتے ہیں نہ جاتے ہیں
پروین ام مشتاق