وقت کی طاق پہ دونوں کی سجائی ہوئی رات
کس پہ خرچی ہے بتا میری کمائی ہوئی رات
اور پھر یوں ہوا آنکھوں نے لہو برسایا
یاد آئی کوئی بارش میں بتائی ہوئی رات
ہجر کے بن میں ہرن اپنا بھی میرا ہی گیا
عسرت رم سے بہرحال رہائی ہوئی رات
تو تو اک لفظ محبت کو لیے بیٹھا ہے
تو کہاں جاتی مرے جسم پہ آئی ہوئی رات
دل کو چین آیا تو اٹھنے لگا تاروں کا غبار
صبح لے نکلی مرے ہاتھ میں آئی ہوئی رات
اور پھر نیند ہی آئی نہ کوئی خواب آیا
میں نے چاہی تھی مرے خواب میں آئی ہوئی رات
غزل
وقت کی طاق پہ دونوں کی سجائی ہوئی رات
وپل کمار