وقت کے ہاتھوں نے جب تک کہ نہ خاموش کیا
میں نے تجھ کو نہ کسی لمحہ فراموش کیا
اس کی چاہت نے سنورنے کا سلیقہ بخشا
شہر کے شہر کو اس شخص نے خوش پوش کیا
ہجر کے صدمے بہت بخشے یہ سچ ہے لیکن
لذت وصل سے بھی اس نے ہم آغوش کیا
وقت کی دھول نے کجلا دئے سورج کتنے
کیسے کیسوں کو زمانے نے فراموش کیا
تیری قربت نے سکھائی تھی مجھے مے نوشی
اور فرقت نے تری مجھ کو بلانوش کیا
کیا ملا ترک تعلق سے بھی مجھ کو جاویدؔ
یاد نے چھوڑا نہ غم ہی نے سبک دوش کیا
غزل
وقت کے ہاتھوں نے جب تک کہ نہ خاموش کیا
جاوید نسیمی