وقت کے ہاتھوں حکایات انا بھول گئے
ہم وفا بھول گئے آپ جفا بھول گئے
کس کو سمجھائیں یہ سمجھانے کی باتیں کب ہیں
وصل کب یاد رہا ہجر میں کیا بھول گئے
کیا چمن چھوڑا پلٹ کر نہیں دیکھا اس کو
رنگ گل بوئے سمن باد صبا بھول گئے
بجھ گئی شمع جنوں لٹ گئی بزم یاراں
اہل دل سوزش جاں ہوتی ہے کیا بھول گئے
ایسا ویران ہوا کعبۂ ہستی یارب
رہ گئے ہاتھ اٹھے حرف دعا بھول گئے
حسن سرشاریٔ انداز و ادا سے گزرا
اور سب اہل وفا رسم وفا بھول گئے
کم عیاری نے خدا سوز بنایا ایسا
بت تو سب یاد رہے ایک خدا بھول گئے
کون سوچے بھلا کیوں دل نہیں پابند نماز
جب سر شام اذانوں کی صدا بھول گئے
شہر جاناں میں نہیں پوچھنے والا کوئی
کون ہو آئے ہو کیوں تم یہاں کیا بھول گئے
خوب! سرورؔ تمہیں امید کرم یاد رہی
کیا ستم ہے کہ گناہوں کی سزا بھول گئے
غزل
وقت کے ہاتھوں حکایات انا بھول گئے
سرور عالم راز