EN हिंदी
وقت کے در پر بھی ہے بہت کچھ وقت کے در سے آگے بھی | شیح شیری
waqt ke dar par bhi hai bahut kuchh waqt ke dar se aage bhi

غزل

وقت کے در پر بھی ہے بہت کچھ وقت کے در سے آگے بھی

کلیم عاجز

;

وقت کے در پر بھی ہے بہت کچھ وقت کے در سے آگے بھی
شام و سحر کے ساتھ بھی چلئے شام و سحر سے آگے بھی

عقل و خرد کے ہنگاموں میں شوق کا دامن چھوٹ نہ جائے
شوق بشر کو لے جاتا ہے عقل بشر سے آگے بھی

دار و رسن کی ریشہ داوانی گردن و سر تک رہتی ہے
اہل جنوں کا پاؤں رہا ہے گردن و سر سے آگے بھی

میرے گھر کو آگ لگا کر ہم سایوں کو ہنسنے دو
شعلے بڑھ کر جا پہنچیں گے میرے گھر سے آگے بھی

عشق نے راہ وفا سمجھائی سمجھانے کے بعد کہا
وقت پڑا تو جانا ہوگا راہ گزر سے آگے بھی

شاعر فکر و نظر کا مالک دل کا سلطاں گھر کا فقیر
دنیا کا پامال قدم بھی دنیا بھر سے آگے بھی

آنکھیں جو کچھ دیکھ رہی ہیں اس سے دھوکا کھائیں کیا
دل تو عاجزؔ دیکھ رہا ہے حد نظر سے آگے بھی