EN हिंदी
وقت کا کچھ رکا سا دھارا ہے | شیح شیری
waqt ka kuchh ruka sa dhaara hai

غزل

وقت کا کچھ رکا سا دھارا ہے

اسلم آزاد

;

وقت کا کچھ رکا سا دھارا ہے
تم نے شاید مجھے پکارا ہے

تم نہ آؤ گے یہ بھی ہے معلوم
چند یادوں کا بس سہارا ہے

ان کی یادوں کے چند پھولوں سے
چمن تازہ دل ہمارا ہے

آج ہم نے تو دے کے جاں اپنی
زندگی تیرا قرض اتارا ہے

ان کی نظروں نے زخم دل کو مرے
مندمل کر کے پھر ابھارا ہے

لوگ کہتے ہیں اس کو بھی شبنم
سر مژگاں جو اک ستارا ہے

پھر بھی حاصل سکوں نہیں اسلمؔ
عمر بھر حسرتوں کو مارا ہے