وقت کا کچھ رکا سا دھارا ہے
تم نے شاید مجھے پکارا ہے
تم نہ آؤ گے یہ بھی ہے معلوم
چند یادوں کا بس سہارا ہے
ان کی یادوں کے چند پھولوں سے
چمن تازہ دل ہمارا ہے
آج ہم نے تو دے کے جاں اپنی
زندگی تیرا قرض اتارا ہے
ان کی نظروں نے زخم دل کو مرے
مندمل کر کے پھر ابھارا ہے
لوگ کہتے ہیں اس کو بھی شبنم
سر مژگاں جو اک ستارا ہے
پھر بھی حاصل سکوں نہیں اسلمؔ
عمر بھر حسرتوں کو مارا ہے
غزل
وقت کا کچھ رکا سا دھارا ہے
اسلم آزاد