وقت غروب آج کرامات ہو گئی
زلفوں کو اس نے کھول دیا رات ہو گئی
کل تک تو اس میں ایسی کرامت نہ تھی کوئی
وہ آنکھ آج قبلۂ حاجات ہو گئی
اے سوز عشق تو نے مجھے کیا بنا دیا
میری ہر ایک سانس مناجات ہو گئی
اوچھی نگاہ ڈال کے اک سمت رکھ دیا
دل کیا دیا غریب کی سوغات ہو گئی
کچھ یاد آ گئی تھی وہ زلف شکن شکن
ہستی تمام چشمۂ ظلمات ہو گئی
اہل وطن سے دور جدائی میں یار کی
صبر آ گیا فراقؔ کرامات ہو گئی
غزل
وقت غروب آج کرامات ہو گئی
فراق گورکھپوری