وقت عجیب چیز ہے وقت کے ساتھ ڈھل گئے
تم بھی بہت بدل گئے ہم بھی بہت بدل گئے
میرے لبوں کے واسطے اب وہ سماعتیں کہاں
تم سے کہیں بھی کیا کہ تم دور بہت نکل گئے
تیز ہوا نے ہر طرف آگ بکھیر دی تمام
اپنے ہی گھر کا ذکر کیا شہر کے شہر جل گئے
موجۂ گل سے ہمکنار اہل جنوں عجیب تھے
جانے کہاں سے آئے تھے جانے کدھر نکل گئے
شوق وصال تھا بہت سو ہے وصال ہی وصال
ہجر کے رنگ اب کہاں موسم غم بدل گئے
صورت حال اب یہ ہے کہ لوگ خلاف ہیں مرے
اے مرے ہم خیال و خواب تم تو نہیں بدل گئے
بوئے گل اور حصار گل اہل چمن پہ ظلم ہے
اپنی حدود ذات سے جان کے ہم نکل گئے
آب حیات جان کر زہر پیا گیا یہاں
زہر بھی خامشی کا زہر جسم تمام گل گئے
شمع بدن بھی تھے کئی راہ جنوں میں ہم سفر
تاب مقاومت نہ تھی دھوپ پڑی پگھل گئے

غزل
وقت عجیب چیز ہے وقت کے ساتھ ڈھل گئے
حسن عابد