EN हिंदी
وقار دے کے کبھی بے وقار مت کرنا | شیح شیری
waqar de ke kabhi be-waqar mat karna

غزل

وقار دے کے کبھی بے وقار مت کرنا

گہر خیرآبادی

;

وقار دے کے کبھی بے وقار مت کرنا
ہمیں خدا کے لئے شرمسار مت کرنا

نکلنا جب کبھی لے کر چراغ بستی میں
اندھیرے گھر بھی ملیں گے شمار مت کرنا

اسی کا آج بھی ہم انتظار کرتے ہیں
جو کہہ گیا تھا مرا انتظار مت کرنا

یہ مانا آج زمانہ ہے بے وفائی کا
مگر تم ایسا چلن اختیار مت کرنا

سفر کے مارے ہوئے آسمان کے پنچھی
سکوں سے بیٹھے ہیں ان کا شکار مت کرنا

دل اضطراب کی حد سے گزر گیا اے دوست
نیا اب اور کوئی مجھ پہ وار مت کرنا

کہیں بکھر کے نہ رہ جائے غم فضاؤں میں
قبائے غنچۂ دل تار تار مت کرنا

مری خطا کو کرم کی ردا اڑھا دینا
مجھے زمانے کی نظروں میں خوار مت کرنا

جب اختلاف میں سر کو اٹھائے ہوں موجیں
تو اے گہرؔ کبھی دریا کو پار مت کرنا