وجود اس کا کبھی بھی نہ لقمۂ تر تھا
وہ ہر نوالے میں دانتوں کے بیچ کنکر تھا
الگ الگ تھے دل و ذہن بدنصیبوں کے
عجیب بات ہے ہر دھڑ پہ غیر کا سر تھا
نہ جانے ہم سے گلہ کیوں ہے تشنہ کاموں کو
ہمارے ہاتھ میں مے تھی نہ دور ساغر تھا
لہولہان ہی کر دیتا پائے لغزش کو
ثبوت دیتا کہ وہ راستے کا پتھر تھا
بہت ہی خوب تھا وہ اندمال سے پہلے
کہ زخم تازہ تو داغ سیہ سے بہتر تھا
قریب ختم تھا گلشن کا کاروبار ظہیرؔ
رگ گلو کو مگر انتظار خنجر تھا
غزل
وجود اس کا کبھی بھی نہ لقمۂ تر تھا
ظہیر صدیقی