وحشت تھی ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک
مرتے ہی سنا ان کو جنہیں دل لگی کچھ تھی
اچھا ہوا کوئی اس آزار سے اب تک
جب سے لگی ہیں آنکھیں کھلی راہ تکے ہیں
سوئے نہیں ساتھ اس کے کبھو پیار سے اب تک
آیا تھا کبھو یار سو معمول ہم اس کے
بستر پہ گرے رہتے ہیں بیمار سے اب تک
بد عہدیوں میں وقت وفات آن بھی پہنچا
وعدہ نہ ہوا ایک وفا یار سے اب تک
ہے قہر و غضب دیکھ طرف کشتے کے ظالم
کرتا ہے اشارت بھی تو تلوار سے اب تک
کچھ رنج دلی میرؔ جوانی میں کھنچا تھا
زردی نہیں جاتی مرے رخسار سے اب تک
غزل
وحشت تھی ہمیں بھی وہی گھر بار سے اب تک
میر تقی میر