EN हिंदी
وحشت غم میں اچانک ترے آنے کا خیال | شیح شیری
wahshat-e-gham mein achanak tere aane ka KHayal

غزل

وحشت غم میں اچانک ترے آنے کا خیال

محمود تاثیر

;

وحشت غم میں اچانک ترے آنے کا خیال
جیسے نادار کو گم گشتہ خزانے کا خیال

اس محبت میں ہدف کوئی بھی بن سکتا ہے
اس میں رکھا نہیں جاتا ہے نشانے کا خیال

وہ کبوتر تو اسی دن سے مرے جال میں ہے
جب اسے پہلے پہل آیا تھا دانے کا خیال

میں کناروں کو کبھی دھیان میں لاتا ہی نہیں
لطف دیتا ہے مجھے ڈوبتے جانے کا خیال

مرنے دیتا نہیں میں بادیہ گردی کا رواج
میں نئے عشق میں لاتا ہوں پرانے کا خیال

اے خدا میرے مقدر میں وہ سجدہ لکھ دے
جس میں آئے نہ مجھے سر کو اٹھانے کا خیال