وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سیکڑوں کوس نہیں صورت انساں پیدا
سحر وصل کرے گی شب ہجراں پیدا
صلب کافر ہی سے ہوتا ہے مسلماں پیدا
دل کے آئینے میں کر جوہر پنہاں پیدا
در و دیوار سے ہو صورت جاناں پیدا
خار دامن سے الجھتے ہیں بہار آئی ہے
چاک کرنے کو کیا گل نے گریباں پیدا
نسبت اس دست نگاریں سے نہیں کچھ اس کو
یہ کلائی تو کرے پنجۂ مرجاں پیدا
نشۂ مے میں کھلی دشمنی دوست مجھے
آب انگور نے کی آتش پنہاں پیدا
باغ سنسان نہ کر ان کو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مرغ خوش الحاں پیدا
اب قدم سے ہے مرے خانۂ زنجیر آباد
مجھ کو وحشت نے کیا سلسلہ جنباں پیدا
رو کے آنکھوں سے نکالوں میں بخار دل کو
کر چکے ابر مژہ بھی کہیں باراں پیدا
نعرہ زن کنج شہیداں میں ہو بلبل کی طرح
آب آہن نے کیا ہے یہ گلستاں پیدا
نقش ان کا نہ کسی لعل سے لب پر بیٹھا
میرے منہ میں ہوئے تھے کس لیے دنداں پیدا
خوف نا فہمی مردم سے مجھے آتا ہے
گاؤ خر ہونے لگے صورت انساں پیدا
روح کی طرح سے داخل ہو جو دیوانہ ہے
جسم خاکی سمجھ اس کو جو ہو زنداں پیدا
بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم عدم
دیکھتا ہوں جسے ہوتا ہے وہ عریاں پیدا
اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جس کی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا
موجد اس کی ہے سیہ روزی ہماری آتشؔ
ہم نہ ہونے تو نہ ہوتی شب ہجراں پیدا
غزل
وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
حیدر علی آتش