وحشت آثار و سکوں سوز نظاروں کے سوا
اور سب کچھ ہے گلستاں میں بہاروں کے سوا
اب نہ بے باک نگاہی ہے نہ گستاخ لبی
چند سہمے ہوئے مبہم سے اشاروں کے سوا
ساقیا کوئی نہیں مجرم مے خانہ یہاں
تیرے کم ظرف و نظر بادہ گساروں کے سوا
حسرتیں ان میں ابھی دفن ہیں انسانوں کی
نام کیا دیجیے سینوں کو مزاروں کے سوا
دور تک کوئی نہیں ہے شجر سایہ دار
چند سوکھے ہوئے پیڑوں کی قطاروں کے سوا
آپ کہتے ہیں کہ گلشن میں ہے ارزانئ گل
اپنے دامن میں تو کچھ بھی نہیں خاروں کے سوا
منزل شوق میں اک اک کو دیا اذن سفر
کوئی بھی تو نہ ملا جادہ شماروں کے سوا
زور طوفاں تو بہ ہر حال ہے زور طوفاں
کس سے ٹکرائے گی موج اپنی کناروں کے سوا
کون اس دور کے انساں کا مقدر بنتا
چند آوارہ و منحوس ستاروں کے سوا
کتنے قدموں کی خراشوں سے لہو رستا ہے
کس کو معلوم ہے یہ راہ گزاروں کے سوا
بات کرتے ہیں وہ اب ایسی زباں میں اعجازؔ
کوئی سمجھے نہ جسے نامہ نگاروں کے سوا
غزل
وحشت آثار و سکوں سوز نظاروں کے سوا
اعجاز صدیقی