وحشت دیواروں میں چنوا رکھی ہے
میں نے گھر میں وسعت صحرا رکھی ہے
مجھ میں سات سمندر شور مچاتے ہیں
ایک خیال نے دہشت پھیلا رکھی ہے
روز آنکھوں میں جھوٹے اشک بلوتا ہوں
غم کی ایک شبیہ اتروا رکھی ہے
جاں رہتی ہے پیپر ویٹ کے پھولوں میں
ورنہ میری میز پہ دنیا رکھی ہے
خوف بہانہ ہے ساقیؔ نغمے کی لاش
ایک زمانے سے بے پردا رکھی ہے
غزل
وحشت دیواروں میں چنوا رکھی ہے
ساقی فاروقی