وحشت بھری راتوں کو کنارہ نہیں ملتا
دل ڈوب چلا صبح کا تارا نہیں ملتا
ملتے ہیں بہت یوں تو جو آغوش کشا ہو
دل کے لئے وہ درد کا دھارا نہیں ملتا
اس عہد کی تصویر میں اپنا بھی لہو ہے
ڈھونڈے سے مگر نام ہمارا نہیں ملتا
قدرت کا کرم ہو تو الگ بات ہے ورنہ
مشکل میں تو اپنوں کا سہارا نہیں ملتا
صدیاں ہیں فقط ایک ہی لمحے کی کہانی
لمحہ جسے کھو دے وہ دوبارہ نہیں ملتا
غزل
وحشت بھری راتوں کو کنارہ نہیں ملتا
ماہ طلعت زاہدی