وہم و گماں میں بھی کہاں یہ انقلاب تھا
جو کچھ بھی آج تک نظر آیا وہ خواب تھا
پائے مراد پا کے وہ بے حال ہو گیا
منزل بہت حسین تھی رستہ خراب تھا
چہرے کو تیرے دیکھ کے خاموش ہو گیا
ایسا نہیں سوال ترا لا جواب تھا
اس کے پروں میں قوت پرواز تھی مگر
ان موسموں کا اپنا بھی کوئی حساب تھا
آنکھوں میں زندگی کی طرح آ بسا ہے وہ
میری نظر میں پہلے جو منظر خراب تھا
جیسے ہوا کا جھونکا تھا آ کر گزر گیا
وہ شخص اس کے بعد کہاں دستیاب تھا
سارا کلام اس سے معنون ہوا حیاتؔ
جس کا وجود خود بھی مکمل کتاب تھا
غزل
وہم و گماں میں بھی کہاں یہ انقلاب تھا
حیات لکھنوی