وہیں پہ سچ کا مجھے ترجمان ہونا تھا
قدم قدم پہ جہاں امتحان ہونا تھا
تمہاری یاد کو کب تک سجا کے رکھتا میں
کبھی تو خالی یہ دل کا مکان ہونا تھا
عجیب شوق تھا اس کو بھی حق نوائی کا
گنوا کے جان بھی جگ میں مہان ہونا تھا
میں اور حرص کیا کرتا لپک کے چھونے کی
مجھے زمین اسے آسمان ہونا تھا
ہوا کی حکم عدولی سے مجھ کو حاصل کیا
مرے نصیب میں جب بادبان ہونا تھا

غزل
وہیں پہ سچ کا مجھے ترجمان ہونا تھا
نسیم احمد نسیم