EN हिंदी
وہی مرے خس و خاشاک سے نکلتا ہے | شیح شیری
wahi mere KHas-o-KHashak se nikalta hai

غزل

وہی مرے خس و خاشاک سے نکلتا ہے

ظفر اقبال

;

وہی مرے خس و خاشاک سے نکلتا ہے
جو رنگ سا تری پوشاک سے نکلتا ہے

کرے گا کیوں نہ مرے بعد حسرتوں کا شمار
ترا بھی حصہ ان املاک سے نکلتا ہے

ہوا کے ساتھ جو اک بوسہ بھیجتا ہوں کبھی
تو شعلہ اس بدن پاک سے نکلتا ہے

ملے اگر نہ کہیں بھی وہ بے لباس بدن
تو میرے دیدۂ نمناک سے نکلتا ہے

اتارتا ہے مجھے نیند کے نیستاں میں
ابھی وہ خواب رگ تاک سے نکلتا ہے

فصیل فہم کے اندر بھی کچھ نہیں موجود
نہ کوئی خیمۂ ادراک سے نکلتا ہے

دھوئیں کی طرح سے اک پھول میرے ہونے کا
کبھی زمیں کبھی افلاک سے نکلتا ہے

مرے سوا بھی کوئی ہے جو میرے ہوتے ہوئے
بدل بدل کے مری خاک سے نکلتا ہے

یہ معجزے سے کوئی کم نہیں ظفرؔ اپنا
جو کام اس بت چالاک سے نکلتا ہے