EN हिंदी
وہی اک پکار وہی فغاں مری مہر دیدہ و لب میں ہے | شیح شیری
wahi ek pukar wahi fughan meri mohr-e-dida-o-lab mein hai

غزل

وہی اک پکار وہی فغاں مری مہر دیدہ و لب میں ہے

مختار صدیقی

;

وہی اک پکار وہی فغاں مری مہر دیدہ و لب میں ہے
ہے کراہ جو شب و روز کی جو فضا کے شور و شغب میں ہے

کبھی دن ڈھلے پہ ہو سامنا کبھی دید آخر شب میں ہے
ہے یہی مآل طلب مرا تو مری عبادت رب میں ہے

کبھی فاصلوں کی مسافتوں پہ عبور ہو تو یہ کہہ سکوں
مرا جرم حسرت قرب ہے تو یہی کمی یہاں سب میں ہے

سحر ازل کو جو دی گئی وہی آج تک ہے مسافری
اسے طے کریں تو پتہ چلے کہاں کون کس کی طلب میں ہے

کوئی اور طرز حیات بھی مجھے اب رہین کرم بتا
کہ ہے بات میری گرفتنی مری چپ بھی سوئے ادب میں ہے