وہی اک پکار وہی فغاں مری مہر دیدہ و لب میں ہے
ہے کراہ جو شب و روز کی جو فضا کے شور و شغب میں ہے
کبھی دن ڈھلے پہ ہو سامنا کبھی دید آخر شب میں ہے
ہے یہی مآل طلب مرا تو مری عبادت رب میں ہے
کبھی فاصلوں کی مسافتوں پہ عبور ہو تو یہ کہہ سکوں
مرا جرم حسرت قرب ہے تو یہی کمی یہاں سب میں ہے
سحر ازل کو جو دی گئی وہی آج تک ہے مسافری
اسے طے کریں تو پتہ چلے کہاں کون کس کی طلب میں ہے
کوئی اور طرز حیات بھی مجھے اب رہین کرم بتا
کہ ہے بات میری گرفتنی مری چپ بھی سوئے ادب میں ہے
غزل
وہی اک پکار وہی فغاں مری مہر دیدہ و لب میں ہے
مختار صدیقی