وہی ہے دشت سفر رہ گزر سے آگے بھی
وہی خلا ہے حدود نظر سے آگے بھی
وہ آفتاب اسی صحن میں معلق ہے
اگرچہ گھر ہیں بہت اس کے گھر سے آگے بھی
ہمارے دم سے ہے قائم زمیں کی زرخیزی
ہمارا فیض ہے شاخ شجر سے آگے بھی
تلاش نور میں ہم بارہا نکل آئے
نظر کے ساتھ حدود سفر سے آگے بھی
غلط امید نہ باندھو نحیف لوگوں سے
کوئی اڑا ہے بھلا بال و پر سے آگے بھی
یہاں سے لوٹ چلو جان کی اماں چاہو
کئی طلسم ہیں دیوار و در سے آگے بھی

غزل
وہی ہے دشت سفر رہ گزر سے آگے بھی
ستار سید