EN हिंदी
وہی ہے دشت سفر رہ گزر سے آگے بھی | شیح شیری
wahi hai dasht-e-safar rahguzar se aage bhi

غزل

وہی ہے دشت سفر رہ گزر سے آگے بھی

ستار سید

;

وہی ہے دشت سفر رہ گزر سے آگے بھی
وہی خلا ہے حدود نظر سے آگے بھی

وہ آفتاب اسی صحن میں معلق ہے
اگرچہ گھر ہیں بہت اس کے گھر سے آگے بھی

ہمارے دم سے ہے قائم زمیں کی زرخیزی
ہمارا فیض ہے شاخ شجر سے آگے بھی

تلاش نور میں ہم بارہا نکل آئے
نظر کے ساتھ حدود سفر سے آگے بھی

غلط امید نہ باندھو نحیف لوگوں سے
کوئی اڑا ہے بھلا بال و پر سے آگے بھی

یہاں سے لوٹ چلو جان کی اماں چاہو
کئی طلسم ہیں دیوار و در سے آگے بھی