وہی حادثوں کے قصے وہی موت کی کہانی
ابھی دسترس سے باہر ہے شعور زندگانی
جو مٹا کے اپنی ہستی بنا غم گسار صحرا
اسے راس کیسے آتی ترے در کی پاسبانی
وہی شخص لاابالی ہوا منکر حقیقت
جسے چلمنوں کی سازش سے ملی تھی بد گمانی
نہ غبار کارواں ہے نہ نشان راہ منزل
کوئی عکس ماورا کی کرے کیسے ترجمانی
جو فضائے بحر و بر کو کرے اور بھی منور
کرو اے وفاؔ مسخر وہ شعاع آسمانی
غزل
وہی حادثوں کے قصے وہی موت کی کہانی
وفا براہی