وہی دریچۂ جاں ہے وہی گلی یارو
مگر نگاہ ارادہ بدل چکی یارو
کتاب حال کا کوئی ورق نہیں پلٹا
کتاب عہد گزشتہ بھی کب پڑھی یارو
ہم اپنے ذہن کی المایوں میں ڈھونڈیں گے
وہ ایک سال وہ اک ماہ وہ گھڑی یارو
اس ایک موڑ پہ تنہا ہمیں اکیلے ہیں
کہ پچھلے موڑ پہ دنیا بھی ساتھ تھی یارو
خدا کا شکر کہ سب خیریت سے ہے یعنی
مرے وجود میں ہلچل ہے آج بھی یارو
یہ اور بات کہ ان کو یقیں نہیں آیا
پہ کوئی بات تو برسوں میں ہم نے کی یارو
غزل
وہی دریچۂ جاں ہے وہی گلی یارو
مغل فاروق پرواز