EN हिंदी
وہی درد ہے وہی بے بسی ترے گاؤں میں مرے شہر میں | شیح شیری
wahi dard hai wahi bebasi tere ganw mein mere shahr mein

غزل

وہی درد ہے وہی بے بسی ترے گاؤں میں مرے شہر میں

عباس دانا

;

وہی درد ہے وہی بے بسی ترے گاؤں میں مرے شہر میں
بے غموں کی بھیڑ میں آدمی ترے گاؤں میں مرے شہر میں

یہاں ہر قدم پہ سوال ہے وہاں ہر قدم پہ ملال ہے
بڑی الجھنوں میں ہے زندگی ترے گاؤں میں مرے شہر میں

کسے دوست اپنا بنائیں ہم کسے دل کا حال سنائیں ہم
سبھی غیر ہیں سبھی اجنبی ترے گاؤں میں مرے شہر میں

ہیں سبھی کی اپنی ضرورتیں کوئی کیسے بانٹے محبتیں
نہ خلوص ہے نہ ہے دوستی ترے گاؤں میں مرے شہر میں

نہ وہ حسن ہے نہ حجاب ہے نہ وہ عشق میں تب و تاب ہے
نہ وہ آبروئے وفا رہی ترے گاؤں میں مرے شہر میں

میں علاج غم بھی نہ کر سکا ترا جام تو بھی نہ بھر سکا
ہے ہر ایک موڑ پہ تشنگی ترے گاؤں میں مرے شہر میں

یہ حسد جہاں کی نظر میں ہے غم داناؔ ان کے جگر میں ہے
ہے سبھی کو پیار سے دشمنی ترے گاؤں میں مرے شہر میں