EN हिंदी
وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے | شیح شیری
wahi chitwan ki KHun-KHwari jo aage thi so ab bhi hai

غزل

وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

حیدر علی آتش

;

وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
تری آنکھوں کی بیماری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

وہی نشو نمائے سبزہ ہے گور غریباں پر
ہوائے چرخ زنگاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

تعلق ہے وہی تا حال ان زلفوں کے سودے سے
سلاسل کی گرفتاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

وہی سر کا پٹکنا ہے وہی رونا ہے دن بھر کا
وہی راتوں کی بیداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

رواج عشق کے آئیں وہی ہیں کشور دل میں
رہ و رسم وفا جاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

وہی جی کا جلانا ہے پکانا ہے وہی دل کا
وہ اس کی گرم بازاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

نیاز خادمانہ ہے وہی فضل الٰہی سے
بتوں کی ناز برداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

فراق یار میں جس طرح سے مرتا تھا مرتا ہوں
وہ روح و تن کی بے زاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

وہی سودائے کاکل کا ہے عالم جو کہ سابق تھا
یہ شب بیمار پر بھاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

جنوں کی گرم جوشی ہے وہی دیوانوں سے اپنی
وہی داغوں کی گلکاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے

وہی بازار گرمی ہے محبت کی ہنوز آتشؔ
وہ یوسف کی خریداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے