وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
تری آنکھوں کی بیماری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
وہی نشو نمائے سبزہ ہے گور غریباں پر
ہوائے چرخ زنگاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
تعلق ہے وہی تا حال ان زلفوں کے سودے سے
سلاسل کی گرفتاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
وہی سر کا پٹکنا ہے وہی رونا ہے دن بھر کا
وہی راتوں کی بیداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
رواج عشق کے آئیں وہی ہیں کشور دل میں
رہ و رسم وفا جاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
وہی جی کا جلانا ہے پکانا ہے وہی دل کا
وہ اس کی گرم بازاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
نیاز خادمانہ ہے وہی فضل الٰہی سے
بتوں کی ناز برداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
فراق یار میں جس طرح سے مرتا تھا مرتا ہوں
وہ روح و تن کی بے زاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
وہی سودائے کاکل کا ہے عالم جو کہ سابق تھا
یہ شب بیمار پر بھاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
جنوں کی گرم جوشی ہے وہی دیوانوں سے اپنی
وہی داغوں کی گلکاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
وہی بازار گرمی ہے محبت کی ہنوز آتشؔ
وہ یوسف کی خریداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
غزل
وہی چتون کی خوں خواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
حیدر علی آتش