EN हिंदी
وہی آہٹیں در و بام پر وہی رت جگوں کے عذاب ہیں | شیح شیری
wahi aahaTen dar-o-baam par wahi rat-jagon ke azab hain

غزل

وہی آہٹیں در و بام پر وہی رت جگوں کے عذاب ہیں

طارق بٹ

;

وہی آہٹیں در و بام پر وہی رت جگوں کے عذاب ہیں
وہی ادھ بجھی مری نیند ہے وہی ادھ جلے مرے خواب ہیں

مرے سامنے یہ جو خواہشوں کی ہے دھند حد نگاہ تک
پرے اس کے جانے حقیقتیں کہ حقیقتوں کے سراب ہیں

مری دسترس میں کبھی تو ہوں جو ہیں گھڑیاں کیف و نشاط کی
ہے یہ کیا کہ آئیں ادھر کبھی تو لگے کہ پا بہ رکاب ہیں

کبھی چاہا خود کو سمیٹنا تو بکھر کے اور بھی رہ گیا
ہیں جو کرچی کرچی پڑے ہوئے مرے سامنے مرے خواب ہیں

یہ نہ پوچھ کیسے بسر کیے شب و روز کتنے پہر جیے
کسے رات دن کی تمیز تھی کسے یاد اتنے حساب ہیں

انہیں خوف رسم و رواج کا ہمیں وضع اپنی عزیز ہے
وہ روایتوں کی پناہ میں ہم انا کے زیر عتاب ہیں

ابھی زخم نو کا شمار کیا ابھی رت ہے دل کے سنگھار کی
ابھی اور پھوٹیں گی کونپلیں ابھی اور کھلنے گلاب ہیں